لیکھنی ناول -20-Oct-2023
تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر4
علی علی کیا بکواس ہے یہ دماغ خراب ہوگیا ہے
تمھارا ہوش میں تو ہو تم پتاہے کٕا بول رہے نجف نے علی کاگریبان پکڑ کر اس کو جھنجھوڑا وہ لڑکی جو کل تمھاری زندگی میں شامل ہوٸی ہے اس کا تم کو ذرا احسا س نہیں اگر تم کسی اور کو پسند کرتے تھے تو اس کو کیوں شامل کیا اپنی زندگی کیوں کی اس سے شادی پہلے کیوں نہیں روکا یہ سب
روکا تھا بھاٸی بہت کوشش کی امی کو بھی بولا اور آپ کی ہادیہ کو بھی کہ میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتا پر سب کو مذاق لگا بکواس سمجھا سب نے میری باتوں کو کسی نے دھیان نہیں دیا میری باتوں کو وہ درشتگی سے بولا
جو بھی ہو علی تمھیں مجھے سے یا ابو سے بات کرنی چاہیے تھی۔ امی کو تو تمھاری عادت کی وجہ سے یقین نہیں آیا ہوگا یہ جو تم بات بات پر مذاق کرت ہو اور جو تمھارا اور ہادیہ کاساتھ ہے اس کو دیکھ کر کوٸی نہیں کہ سکتا کہ تم اور ہادیہ مطلب
تم دونوں کی اٹیچمنٹ دیکھ کر تو تمھاری شادی طے کی تھی
بھا ٸی وہ میری دوست ہے اچھی اور بس اب تو اس نے یہ شادی کرکے یہ دوستی بھی ختم کردی ہے علٕی نے اپنے بھاٸی کو جواب دیا
میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا علی جو بھی ہو تم کو کل وہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا اس سب میں ہادیہ کا کیا قصور ہے
بھاٸی میں اس کو اس شادی سے بہت روکا تھا پر اس نے میری کوٸی بات نہیں مانی میں غصے میں تھا ورنہ آپ جانتے ہو میں اس کو تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا وہ میری سب سے اچھی دوست تھی اس نے سب ختم کردیا
دھڑام سے کچھ گرنے کی آواز پر وہ دونوں چونکے اور جلدی سے کمرے میں آۓ
جہاں ہادیہ گری ہوٸی تھی
لگتا ہے اس نے سب سنا لیا ہے تم بھی نہ علی حد کرتے ہو اٹھاو اس کو اور ابھی اپنا منہ بند رکھنا کسی سے کوٸی بات کرنے ک ضرورت نہیں ہے
اس نے ہادیہ کو بیڈ پرلٹایا تو اس کو اس پر بے تحاشہ ترس بھی آیا ایک ہی رات میں اس کے چہرے پر ویرانی تھی اس کاگلاب سا چہرہ مرجھا گیا تھا۔ اس کو بیڈ پر لٹا دیا جبکہ نجف اپنے کمرے میں چلا گیا اور علی کو ہادیہ کا خیا ل رکھنے کی تاکید کرنا نہیں بھولا
علی نے اس کے جانے کے بعد ہادیہ کے اوپر کمفٹر ٹھیک کیا اور خود گریٹ جلا کر کرسی پر بیٹھا بیٹھا ماضی میں کھو گیا
یہ گھر ہے اقرار شاہ کا جہاں ان کی بیگم جمیلہ شاہ اور ان تین بیٹے تین بیٹیاں اوران کی بڑی بہو شماٸلہ ہنسی خوشی رہتے ہیں اب ذرا تعارف شاہ فیملی کا نجف شاہ سب سے بڑا بیٹا ہے اور ڈاکٹر ہے اس کی شادی شماٸلہ سے ان کی پسند سے ہوٸی ہے اور ان کے دو بچےہیں ایک بیٹا آیان جو دوسال کا ہے اور ایک بیٹی جو پانچ سال کی ہے اور گھربھر کی لاڈلی ہے اس کے بعد ان کی بیٹی ساٸرہ ہے جو دماغی طور پر کمزور ہے اور ا س کے بعد ان کی بیٹی مریم جس کی شادی ارشد شاہ سے ہوٸی ہے جو انکی پھوپھو کا بیٹا ہے اور ان کے بھی دو بچے ہیں ایک بٕیٹا فیصل جو نہایت شریر ہے اور سب کیاآنکھ کاتارا ہے ا س کی عمر 7 سال ہے اور اس سی چھوٹی مریم کی بیٹی حیا جو ابھی صرف 9 ماہ کی ہے مریم کے بعد فواد اور علی ہٕیں جو جڑاوں ہیں فواد بھی ساٸرہ کی طرح ذہنی طرح معذور ہے سب سے چھو ٹی سدرہ ہے
یہ گھرانٕہ ہے ملک نعمان کا جہاں راحت ملک اور ان کے چار بچے دو بیٹے اور دو بیٹیاں انکے گھر کی رونق بڑھاتے ہیں سب پہلے یاسرملک ہے جو اپنے بابا کے ساتھ ان کا کاروبار دیکھتا ہے اور پھر ہے چلبلٕی اورہنستی مسکراتی زندہ دل ہادیہ جو نہ صرف ملک ہاوس بلکہ شاہ ہاوس کی بھی رونق ہے دونوں گھروں کی مکینوں کو اس کے بنا گزارا نہیں ہے ہادیہ کے نمبر آتا عاشر ملک کا اس کے بعد ہے نور جو اپنی بہن ہادیہ سے بہت مختلف ہے خاموش اور سادہ سی
📶📶📶📶📶📶📶ماضی
یہ ایک کالج کی کینٹن کامنظر ہے ۔ جہاں وہ چاروں اپنے گروپ کے لیڈر کے پیسوں پر عیش کرتے ہوۓ سموسوں اور کوک سے انصاف کررہے ہیں
میرے لیے کیا آڈر کیا تم نے علی کوکوٸی کال سننے گیا تھا کافی دیر بعد آیا تو ان کے ساتھ بیٹھتے ہوۓبولا
تیرے لیے بھی کچھ آڈر کرنا بتایا نہیں تو حیدر کوک کا سیپ لے کر بولا
نہیں یہ سب تیرے ٹھونس کے لیے تھا پیسے بھی میرے اور پوچھا بھی مجھے ہی جا رہا ہے حد ہے تم جیسے دوست ہو تو دشمن کی ضرورت نہیں بے غیرت ہو تم چل دے عبداللہ مجھے بھی تھوڑی کوک اس نے عبداللہ سے کوک لینےکے لیے ہاتھ بڑھایا جو عبداللہ نے فورا پیچھے کیا اور بولا جب ہم ہیں ہی بے غیرت تو جا کسی غیرت مند کے پاس وہ تجھے دے گا اس نے فورا بدلہ چکایا
جب کہ علی اس کو دیکھ کر دانت پیسنے لگا بڑےکوٸی تم بے وفاہو
ان چھو ڑ و علی یہ تم میری کوک اور سموسہ لیے لو ہادیہ نےان کو الجھتے دیکھا تو بولی
تم ایک پل کے چپ نہٕیں رہ سکتی اور ابھی تو تم بھوک سے مر رہی تھی اور خودنہٕیں کھارہی اس کمینے کو دےرہی ہو حیدر ہادیہ پر ناراض ہوکر بولا
تجھے کیا تکلیف ہے توجل رہا اور یہ بول کیسے رہا ہے تو ہادیہ سے سوری بول جلدی سے ورنہ تیرا منہ توڑ دوں گا
علی اورحیدراب دونو ں ایک لفظ مت بولنا اور کوٸی بات نہیں حیدر دوست ہے ہمارا اتنا تو ہوجاتا ہے چھوڑباس بات کو
کوٸی نہٕیں تم صرف میری دوست ہو اورکسیکی بھی نہیں آٸی سمجھ اور کوٸی تم سے ایسے بات کریے برداشت نہیں ہوتا چلو اٹھو ہم چلتے ہیں یہاں سے وہ جذباتی ہوکربولا اس وقت وہ نہایت غصے میں تھا
اچھا اچھا تم جاو نہیں یہ سوری کرتا ہےابھی ہادیہ سے عبداللہ نے علی کوغصے میں دیکھ کر بولا اور حیدر کو اشارہ کیا
سوری ہادیہ میرا ایسا کوٸی ارادہ نہٕیں تھا جس پر ہادیہ لب باہم ملا کر محض سر ہلا کر رہ گی جبکہ اب علی پرسکون ہوگیا تھا
چلو اب سب ٹھیک ہے تو آو بیٹھو انجواۓ کرتے ہٕیں علٕی ہادیہ کے ساتھ والی چیٸر پر بیٹھ گیا اور اس کی پلیٹ سے سموسے کھانے لگا اور ساتھ ہی ہادیہ کے ہاتھ سے کوک لے کر پینے لگا
حیدر بہت غور سے علی کو دیکھ رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا واقع ہی علی اور ہادیہ صرف دوست ہیں وہ سب اپنی باتوں میں بزی تھے جب عبداللہ نےکسی کو سامنے سے آتےدیکھااورأَسْتَغْفِرُ اللّٰه پڑھنےلگا اس کامنہ ایسےکڑوا ھوگیا جسے اس نے سموسوں کی جگہ کوننین کی گولٕٕی چبا لی ہو
حال
اس کی آنکھ کھولی تو خود کو بیڈ پر پایا اردگرد نگاہ دوڑاٸی تو علی کو کرسی پر بیٹھے ہوٸے سویا دیکھ کر خود کو ملامت کرنے لگی
ہمت کرکے وہ اٹھی تو اس کی چوڑیوں کی آواز سے علی کی آنکھ کھول گی صبح بخیر کیسی ہو اب طبیعت کیسی ہے تمھاری وہ خوشگوار لہجے میں بولا اور مسکرانے لگا
جبکہ ہادیہ اس کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
کیا ہوگیا دیورانی صاحبہ اتنے پیار سے میرا دیور تمھارا حال پوچھ رہا ہے اور مارننگ وش کی کوٸی تو جواب دو اس اگربولو تو میں چلی جاتی ہوں تم نے کسی اور طرح بولنا ہے تو
نہیں نہیں ایسی کوٸی بات نہیں میں ٹھیک ہو أورصبح بخیر وہ جلدی جلدی بولی اور شرم کے مارے سر جھکا لیا
چلو جاو اب تم فریش ہو جاو علٕی پھراپنی بیگم کے ساتھ ناشتہ کرلینا شماٸلہ بولی
جی بھابھی جیسے آپ بولو وہ یہ بول کر واش روم چلا گیا
اب کیسی ہوتم بتاو اور بڑی ظالم ہو ساری رات میرے بھولے دیور کو کرسی پرسلاۓ رکھا اور خود مزے سے بٕیڈ پر اکیلی سوتی رہٕی شماٸلہ اس کو چھیڑتے ہوۓ بولی
نہیں بھا بھی إیسی کوٸی بات نہیں جیسے آپ سمجھ رہی ہو وہ گبھرا کر بولی
ارے ارے اتنا کیوں گھبرا رہی ہو میں مذاق کررہی تھی اچھااٹھوتم تیار ہوکرنیچے آجاوسب ویٹ کررہے ہیں
شماٸلہ کےجانے کے بعد وہ اٹھی اور اپنے کپڑے نکالنے کے بعد علی کے واش روم سے آنے کاویٹ کرنےلگی تھوڑٕی دیر بعد وہ باہر آیا تو اس نے صرف جنیز پہنی ہوٸی تھی اور ٹاول سے وہ اپنے بال خشک کر رہاتھا جب ہادیہ منہ نیچے کرکے جلدی سے واشروم جانے لگی تو وہ اس کے سامنے آگیا
کیا بول رہی تھی تم بھابھی کو بولو اس نے ہادیہ کی کلاٸی پکڑ کر پوچھا
کچھ نہیں وہ بس میری طبعیت کاپوچھ رہی تھی وہ آنکھیں نیچی رکھ کر بولی
میں پاگل لگتا ہو تم کو جو ایسے بول رہی ہو اورنیچےکونسا خزانہ دفن ہے جو تلاش رہی ہو جب میں بات کرو میری طرف دیکھ کر جواب دینا یہ پہلٕی اور آخری وراننگ ہے ورنہ تم جانتی ہو مجھے جاو اب وہ اس دھکا دےکربولا
وہ اپنے آنسو پیتی ہوٸی واش روم آگی اور اپنے کپٹرے اسٹینڈپر کھڑے کرکے اپنی کلاٸی دیکھنے لگی جو اس کے زور سے پکڑنےپر سرخ ہورہی تھٕی آٸینے کے سامنے کھڑے ہوکراپنے آنسو بےدردی سے صاف کیے اور علٕٕی کو نٸے نام سے نوازا کھڑوس کہی کا کھڑوس کھڑوس